مولانا مکی حجازی کے نام "اشکبار مکتوب”۔۔۔تحریر:امجد عثمانی

شیخ حرم کعبہ عزت مآب مولانا محمد مکی حجازی کے اکلوتے بیٹے کی وفات "سوگوار” کر گئی کہ” پیرانہ سالی” میں لخت جگر کی جدائی کا زخم” نڈھال اور گھائل” کر جاتا ہے……..دوستوں کی محفل میں بیٹھا کہ” فقیر مدینہ” جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کے "صوتی پیغام "پر مبنی "افسوسناک اطلاع "سے دل غم میں ڈوب گیا……ڈاکٹر صاحب بھی آواز سے بہت ” دل گرفتہ لگ رہے تھےکہ وہ اپنے اکابرین کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں……میں” شکستہ دل بوڑھے باپ "سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں پا رہا تھا……ذہنی کشکمکش میں تھا کہ بیت اللہ کے قابل صد احترام” مسند نشین بزرگ "کو کیسے اور کن الفاظ میں پرسہ دوں؟؟؟میں نے مکہ مکرمہ کے جید اسلامی سکالر ڈاکٹر جناب سعید عنایت اللہ کو "وائس میسج” بھیجا کہ آپ مکی صاحب سے میری طرف سے بھی تعزیت کر دیجیے گا…..میرا خیال تھا جب ذرا سنبھلیں گے تو پھر بات کروں گا………
"بڑے لوگ”بڑے” منفرد” ہوتے ہیں…کوئی نہ کوئی” انفرادیت” انہیں دوسروں سے” ممتاز "کرتی ہے……ہم ایسے "چھوٹے لوگ”اس مشکل گھڑی میں مولانا مکی کو کیا حوصلہ دیتے کہ انہوں نے ایک” آڈیو پیغام” کے ذریعے خود میرے ایسے عقیدت مندوں کو حوصلہ دیکر ان کی مشکل آسان کر دی کہ کوئی بات نہیں بات کرلیں…….پیغام سنا تو سمجھ آئی کہ اللہ کے منتخب بندے واقعی” باوصف "ہوتے ہیں….!!!
یقین مانیں مکی صاحب کا "پیغام” سننے کے بعد بھی ان سے” براہ راست” بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو ڈاکٹر سعید سے رابطہ کیا کہ پوچھوں کب اور کیسے بات کروں؟ وہ کہنے لگے میں اتفاق سے مولانا مکی کے ہاں ہی بیٹھا ہوں اور ساتھ ہی فون شیخ حرم کو دے دیا……انہوں نے فون کان کو لگاتے ہی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا……میں نے بھی ٹوٹے پھوٹے بے ربط سے لہجے میں کہا کہ شیخ اکلوتے بیٹے کا صدمہ بڑا صدمہ ہے…..میرے پاس "اظہار تعزیت” کے لیے الفاظ نہیں…..ہم نے آپ کو حوصلہ دینا تھا مگر آپ نے مجھ سمیت دنیا بھرکے مسلمانوں کو خود حوصلہ دیکر مثال قائم کر دی ہے…..
مولانا مکی نے اپنے”صوتی پیغام”میں صبر کا عملی مفہوم پیش کرتے ہوئے کہا :برادران مکرم! آج 29 شوال سوموار کا دن ہے……شوال کا مہینہ” اشہر حرم” میں ہے….. یہ مبارک مہینہ حج کے مہینوں میں سے ہے ،جس کے بارے میں اللہ کریم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا "الحج اشہر معلومات” اور پھر پیر کا دن بھی مبارک دن ہے کیونکہ اسی روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور اسی دن رحلت ہے……یہ انسان کی خوش نصیبی ہے کہ اس مہینے اور اس دن موت آئے ……میرے بیٹے محمد عارف حجازی صاحب کا آج ہی مکہ مکرمہ میں عصرکے بعد جنازہ ہوا….. الحمد للہ آپ جانتے ہیں کہ حرم میں اتنی زیادہ مخلوق ہوتی ہے کہ کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا…… کتنی بڑی عظیم مخلوق نے نماز جنازہ پڑھی اور پھر جنت المعلٰی میں اللہ کریم نے ان کو دفن کی اجازت دی…. جہاں میرے بیٹے کی قبر بنی، یہ وہ جگہ ہے جہاں ساتھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک ہے اور انکے ساتھ حضرت سیدہ بی بی اسما رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک ہے جو کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ ہیں…..سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تو شہید ہیں اور میرے بیٹے کو بھی ایک طرف سے چونکہ پیٹ کی تکلیف تھی اور وہ اسی بیماری میں فوت ہوئے….. حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں پیٹ کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید ہوتا ہے تو یہ شہادت کا مرتبہ بھی ان کو ملا….. اور ان کو دو صحابی ماں بیٹے رضی اللہ عنہما کے پہلو میں قبر بھی ملی….. یہی وہ جگہ ہے جسے مکہ والے” نور کا ٹکڑا” کہتے ہیں….یہاں پر بڑے بڑے بزرگ رات کو نور نکلتا ہوا دیکھتے تھے…. سیدہ اسما رضی اللہ عنہا کو بھی اللہ کریم نے بڑی شان دی تھی کہ ان کو "ذات النطاقین "کا لقب ملا….. یہ وہ ماں ہیں کہ جب ظالم حجاج بن یوسف نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مکہ کے باہر پھانسی دی تو انہوں نے لاش دیکھ کر فرمایا اچھا ابھی تک میرا سوار گھوڑے سے نہیں اترا یعنی آپ رضی اللہ عنہا کو خوشی ہو رہی تھی کہ میرا بیٹا اللہ کے راستے میں شہید ہوا ہے اور ظالم کے ہاتھوں سے وہ مظلوم ہے…..اسی لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہ چند کلمات میں ریکارڈ کروا دوں تاکہ ہمیشہ کیلئے محفوظ رہیں….. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ…..!!!
جناب ڈاکٹر احمد علی سراج نےدرست فرمایا کہ مولانا مکی حجازی کا یہ "پیغام "ہمارے لیے رول ماڈل ہے…….ڈاکٹر صاحب خود بھی بڑے راضی برضا آدمی ہیں کہ وہ بھی مکی صاحب کی طرح اپنے دو جواں سال بیٹوں عبداللہ اور احمد کا غم دل میں لیے پھرتے ہیں…….
مولانا مکی صاحب واقعی کمال آدمی ہیں…..ان سے "پہلا تعارف”جناب ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ کے” توسط "سے ہوا……کیسے ہوا وہ بڑی دلچسپ کہانی ہے لیکن پہلے مکی صاحب بارے کچھ باتیں جو بہت کم لوگ جانتے ہیں……..مولانا مکی حجازی 1940میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے…….مولانا مکی کا اصل نام محمد خیر حجازی ہے…..ان کے والد گرامی مولانا خیر محمد ٹھل حمزہ ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھتے تھے…..وہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے شاگرد اور مولانا زکریا کاندھلوی کے قریبی ساتھی تھے……وہ عرب و عجم میں معتبر عالم دین مانے جاتے تھے…..چھ دہائی قبل حرم کعبہ میں ان کا درس ہوتا تھا….عرب علمائے کرام ان کے درس میں شریک ہوتے……مدینہ منورہ میں ان کے نام سے” رباط الشیخ خیر محمد” اب بھی موجود ہے…….1972میں مولانا خیر محمد کے انتقال کے بعد مولانا محمد خیر حجازی نے اپنے والد کی مسند سنھبالی اور مدرس حرم کعبہ بن گئے…..کہتے ہیں والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے کہا کہ بیٹا مجھے اپنے باپ کے پہلو میں دفن کرکے ہی مکہ چھوڑنا……ماں کی وفات کے بعد ان کی وصیت پوری کی اور اللہ کریم نے انہیں ہمیشہ کے لیے مکہ کا مکین بنا دیا……مولانا مکی "آدھی صدی” سے حرم کعبہ میں درس دیتےچلے آرہے ہیں….صبح عربی جبکہ شام کو اردو میں درس ہوتا ہے…….صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بستی میں آرام فرما مرشد مولانا عبدالحفیظ مکی کے ساتھی مولانا مکی حجازی انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سرپرست بھی ہیں……
مولانا مکی سے پہلا” انٹر ایکشن” بڑا ہی "دلکش” ہے…..اندھیروں میں ڈوبا یہ پیپلز پارٹی کا بدترین دور حکومت تھا…..شومئی قسمت کہ اوپر سے حج سکینڈل بھی آگیا……اس زمانے کے” وزیر مذہبی امور” نے کسی ٹی وی شو میں "اپنی خفت "کم کرنے کے لیے مولانا مکی پر "کیچڑ” اچھالنے کی جسارت کی……مجھے مکہ مکرمہ سےڈاکٹر سعید کا فون آیا کہ کتنی بدبختی ہے کہ ہم اپنے "بچائو”کے چکر میں اللہ والوں کو بھی” الجھانے” سے گریز نہیں کرتے…..کہنے لگے مکی صاحب وزیر کی "جھوٹی کہانی” پر اپنا موقف دینا چاہتے ہیں……میں نے انہیں کہا ہے کہ آپ سے مشورہ کر لیں…کچھ دیر بعد مکی صاحب کا فون آگیا…..وہ وزیر کی "نازیبا حرکت” پر دل برداشتہ تھے……میں نے انہیں بتایا کہ آپ خوش ہو جائیں کہ اللہ کریم نے وزیر صاحب کی چال الٹ دی ہے……میں نے پروگرام دیکھا اور خبر بھی پڑھی ہے…. آپ کو کسی "وضاحت” کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں…..میں نے کہا” بے چارے وزیر "کو آپ کے اصل نام کا بھی پتہ نہیں…….اس نے "سنی سنائی بنیاد”پر صرف کسی” مولانا مکی” کے بارے میں "ایک الزام نما جملہ” بولا ہے……یہاں پاکستان میں ہی نا جانے کتنے "مولانا مکی” ہیں…..کسی کو کیا پتہ وہ کس "مولانا مکی "کی پگڑی اچھال رہے ہیں…….میرے خیال میں اس کا جواب دیکر اسے اہمیت دینے والی بات ہے……بہتر ہے اسے” نظر انداز "کرکے اور ذلیل ہونے دیا جائے…….وہ مسکرائے اور کہا آپ کا مشورہ سو فیصد درست ہے……وزیر جانے اور اس کاضمیر جانے ……..اب ہم اسے خاموشی کی” مار” ماریں گے……”اس ٹیلیفونک گفتگو "کے بعد مکی صاحب میرے مہربان بن گئے……جب دل چاہا فون کرکے دعائیں لے لیں……انہی دنوں اسلام آباد میں ایک بڑے ہوٹل کے مالک مکہ گئے تو مکی صاحب نے بڑی محبت سے ان کے ہاتھ کئی جلدوں پر مشتمل اپنے لیکچرز کا مجموعہ "دروس حرم”کے دو تین سیٹ بھجوائے جو ان صاحب نے مجھے اسلام آباد سے بذریعہ ڈاک ارسال کیے……میں نے ایک سیٹ لاہور پریس کلب کے اس وقت کے "اسلام پسند” صدر برادرم سرمد بشیر اور کچھ کتابیں عزیز از جان ” لبرل دوست” تنویر عباس نقوی کو دے دیں کہ وہ سورہ رحمان پر کتاب لکھنا چاہتے تھے………
پنجابی کے بڑے شاعر ادیب اور صحافی جناب شفقت تنویر مرزا راجہ اورنگزیب صاحب کے بہنوئی تھے…….شفقت صاحب کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے تو راجہ صاحب کہنے لگے کسی بزرگ کو دعا کا کہیں….میں نے مولانا مکی حجازی صاحب کوفون کیا…..انہوں نے دعا کیساتھ ساتھ بتایا کہ سورہ نجم کی ۤ آیت 57 …لیس لہا من دون اللہ کاشفہ….. 1001 مرتبہ پڑھنے کے بعد پانی پر دم کرکے 11دن پلائیں… یہ کینسر کے لئے مجرب آیت مبارکہ ہے….راجہ صاحب نے بتایا اس عمل سے شفقت صاحب کی صحت میں بہتری آئی مگر موت کا تو ایک دن مقرر ہے……ہائے شفقت صاحب بھی نہ رہے اور راجہ صاحب بھی چلے گئے….
شیخ احسان ہمارے محلے دار بزرگ ہیں…….وہ چند سال پہلے عمرہ پر گئے……کہنے لگے حرم والے مکی صاحب کو ملنا چاہتا ہوں…..میں نے انہیں اپنا” وزیٹنگ کارڈ” دیا کہ موقع ملے تو مکی صاحب کو دینا ،ملاقات ہو جائےگی…….شیخ صاحب نے کارڈ مکی صاحب کو دیدیا اور خود اپنی رہائش گاہ چلے گئے……کچھ دنوں بعد میری مکی صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کسی بندے نے رش میں مجھے کارڈ تھمایا…..گھر جاکر دیکھا تو وہ آپ کے نام سے تھا….عجیب بندہ تھا اپنا نمبر ہی لکھ دیتا….اب اسے کہاں ڈھونڈوں؟میں نے کہا شیخ!وہ شیخ صاحب لاہور واپس پہنچ چکے ہیں……
2015میں خاکسار کو دوسری بار عمرہ کی سعادت ملی…..شکرگڑھ سے”ہمارے حضرت صاحب ” اور لاہور سے صحافی دوست محمد عبداللہ بھی ساتھ تھے …..مولانا مکی سے "پہلی ملاقات” ہوئی تو بڑے تپاک سے ملے…….گلے لگایا اور ماتھا چوما……..اگلے دن ان کے پوتے کا ولیمہ تھا……ڈاکٹر سعید عنایت اللہ صاحب مہمان بنا کر ساتھ لے گئے کہ مکی صاحب نے خصوصی طورپر بلایا ہے…..دیکھ کر باغ باغ ہو گئے…..اپنے ساتھ میز پر بٹھایا اور عربی کھانوں سے خوب تواضع کی…….
مولانا مکی حجازی علمائے حق میں سے ہیں اور "نایاب "ہیں….چراغ لیکر بھی ایسے” رخ زیبا "نہیں ملتے….ان کے نام” تعزیت نامہ ” لکھتے آنکھیں تو آنکھیں دل بھی رو دیا….گویا یہ سطور ایک "اشکبار مکتوب”میں بدل گئیں…….اللہ کریم مدرس حرم کعبہ جناب محمد مکی حجازی کے والدین اور بیٹے کے درجات بلند فرمائے….!!!