عوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کیلئے ہر وقت تیار ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین اور عوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔جس کے آغاز پر اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف اور (ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ عوامی مفاد کا اہم ترین ایشو ہے جسے سن کرجلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، یہ دونوں وکلاء صاحبان فریقین کے وکیل ہیں ، ایک سرکار جب کہ دوسرے سیاسی جماعت کے نجی وکیل ہیں، لگتا ہے اس معاملے میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے معاون وکیل سعد ہاشمی نے عدالت کے روبرو استدعا کی کہ مخدوم علی خان بیرون ملک مقدمہ میں دلائل دے رہے ہیں، وہ 17 مئی کو واپس آجائیں گے، 18 مئی کے بعد ہوسکتا ہے بینچ دستیاب نہ ہو۔

سعد ہاشمی کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لارجر بینچ پورا ہفتہ دستیاب ہے، مخدوم علی خان نے مایوس کیا ہے، وہ تحریری طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں، مخدوم علی خان کو پیغام دے دیں، لارجر بینچ کا ہر رکن ان کا بڑا احترام کرتا ہے، یہ کیس آئینی تشریح کا بڑا اہم مقدمہ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ خدمت کا کام ہے ہم کرنا چاہتے ہیں، عدالت تو رات تاخیر تک بیٹھی ہوتی ہے، سپریم کورٹ آئین اور عوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کے لئے ہر وقت تیار ہے، عدالت تمام فریقین کا احترام کرتی ہے، عدالتوں کا بھی احترام کریں۔

بی این پی کے وکیل مصطفی رمدے نے دلائل میں کہا کہہ یہ ضروری نہیں ہر انحراف کسی فائدے کے لئے ہو ،اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین سازوں نے ڈی سیٹ کی سزا رکھی ہے، ہر مرتبہ عدالت کے کندھے استعمال ہوتے ہیں یہ کام پارلیمنٹ کا ہے وہ خود کیوں نہیں کرتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ہر رکن اپنی مرضی کرے گا تو جمہوریت کا فروغ کیسے ہوگا، آرٹیکل 63 اے کے تحت انفرادی نہیں پارٹی کا حق ہے. کیا دس پندرہ ارکان سارے سسٹم کو تبدیل یا ڈی ریل کرسکتے ہیں، انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دے دیں جس سے سسٹم بھی بچ جائے گا. ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا، ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں بلکہ آئین پاکستان ہیں. عدالت کا کام آئین کا تحفظ اور تشریح کرنا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا دنیا کے دو سو ممالک میں سے 32 ملکوں میں انسداد انحراف قانون ہے مگر اس پر عمل 6 ملکوں نے کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا بحث سے ایک بات سمجھے ہیں کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کر سکتا ہے۔ کیس کی مزید سماعت منگل کو ہوگی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں